Showing posts with label Articles. Show all posts
Showing posts with label Articles. Show all posts

Thursday, June 01, 2006

Nisaiyat,Naina,Neele Chiraagh-Dr.Tahir Taunswi-نسائیت،نیناں،نیلے چراغ

نسائیت، نیناں اور نیلےچراغ
اردو شاعری کا مطالعہ کریں اور اخبارات و رسائل کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہےکہ ایک سیلِ شاعرات ہےکہ بہتا چلا آرہا ہےاور شعری مجموعوں کا یہ عالم ہےکہ چھپتےچلےجارہےہیں،مشاعرےہوں یا تقریبات خواتین ہیں کہ چھائی چلی جارہی ہیں اور اس فعل
حالِ جاریہ میں معیار کا تجزیہ کریں تو گراف اونچا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صورتِ حال کچھ اور دکھائی دیتی ہے:
کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتےہیں کچھ
تاہم عہدِ موجود میں ایسی شاعرات بھی ہیں جن کی بدولت اردو شاعرات کا بھرم قائم ہےاور آٹےمیں نمک کےبرابر سہی مگر ان کےاظہار کا اپنا ذائقہ ان کےوجود کی واضح نشاندہی کرتا ہےاس حوالےسےادا جعفری، پروین فنا سید، شبنم شکیل، پروین شاکر، شاہدہ حسن، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، منصورہ احمد، شاہین مفتی، سارہ شگفتہ اس میں چند اور جینوئین شاعرات کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
خواتین قلم کاروں کےاس قبیلےمیں فرزانہ نیناں بھی انفرادی شان کےساتھ شامل ہوئی ہےاور اس کےکلام ِ غزل و نظم کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بہت کم عرصےمیں اعتناد اور پوری تخلیقی توانائی سےاپنا شعری سفر طےکرنا شروع کیا ہےاور اس کےشعور و آگہی کی ندی مدھم سروں سےبہتی ہوئی دل و دماغ کو ٹھنڈک اور فکر و نظر کو تازگی عطا کرتی ہےاور اس کی غزل اور نظم کامطالعہ اس بات کا اعلان نامہ بھی ہےکہ اس کےپس منظر میں نیناں ہی بول رہی ہے،
یہ اس کی اپنی آواز ہےجس نےتخلیقی چشمےمیں ارتعاش پیدا کیا ہے۔اس کا شعری ورثہ اپنا ہی ہے، اس کےلب و لہجہ میں جو گداز ، اپنائیت، درد اور شیرینی ہے وہ ایک عورت کےاسلوب کی نشاندہی کرتےہیں۔ اس تناظر میں اس کےشعری مجموعی ‘نیلی رگیں‘ کا نام بھی پوری شعری معنویت کےساتھ سامنےآتا ہےاور جس طرح درد کا رگوں سےگہرا تعلق ہےاور پھر رگوں پر چوٹ (خواہ وہ ہلکی سی کیوں نہ ہو) لگتی ہےاس کی وجہ سےجو نیلاہٹ آجاتی ہےاس دکھ اور درد کی توجیہہ اور اس کے پیدا ہونےکی وجوہات کا تذکرہ لفظوں کےحوالےسےجس طرح نیناں نےکیا ہےاور سماج کی ساری کیفیات کو جیسے بھرپور انداز میں وہ سامنےلائی ہےاس میں اس کا ذاتی تجربہ ،مشاہدہ اور مطالعہ ایک مثلث شکل اختیار کر لیتا ہےاور پھر اس کی سوچ اور فکر کےدھارےرنگا رنگ موضوعات کی صورت میں شعر کےقالب میں ڈھل جاتےہیں،
یہاں دیدہءبینا کی فرزانگی بھی ہےاور عشق و محبت کی دیوانگی بھی، تخلیقی اظہار کےاس تنوع میں نیناں کی نسائیت نےبڑا کردار ادا کیا ہےجو اس کی ذات پر اعتماد سےچھائی ہوئی ہے۔ جس طرح ہندی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں عورت ہی عاشق کا روپ دھارتی ہے، نیناں کےہاں بھی یہی رویہ ہےکہ وہ دیوانگیءعشق میں سسی کی طرح نہ صرف مارو تھل کی خاک چھانتی ہے بلکہ فراقِ پُنل میں رات بھر اپنی پلکوں کو جھپکنےبھی نہیں دیتی اور یہ اس کی سچی، حقیقی اور بےلوث محبت کا ثبوت ہے،
وہ اپنےمحبوب کی یاد کو سینےسےلگائےاس کےخیال میں گم رہتی ہےاور اپنی ذات کو اس کی ذات میں اس طرح چھپا لیتی ہے جیسے کوئی کسی کی پناہ لےرہا ہو، اس کےیہاں وصلِ یار کی خواہش اورتمنا ضرور ہےمگر اس ہجر کی آگ میں جلنےکا جو عمل ہےاس کا لطف ہی کچھ اور ہے، یہی وجہ ہےکہ وہ یادِ یارِ مہرباں کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتی ہے، اس کےاظہار کی یہ جھلکیاں دیکھیں:
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
.............
رہیں گےنام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کےجن پہ بہاروںنےچھال رکھی ہے
.................
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو
...................
اپنےبےسمت بھٹکتےہوئےنیناں کی قسم
کتنےخوش بخت ہیں سب دیکھنےوالےاس کو
..................
اب کےٹس سےمس نہیں ہونا ہوا کےزور پر
بےدھڑک لکھےوہ ان پتوں پہ رائےبےحساب
نیلمیں نیناں میں جلتےبجھتےہیں نیلےچراغ
خالی کمرےمیں چلےآتےہیں سائےبےحساب
.......................
نیلےسمندروں کا نشہ بڑھ نہ جائےگا
موتی نکال لاؤں اگر بےشمار میں
....................
کبھی ہم نیل کےپانی میں اس انداز سےڈولیں
کہ اپنی داستاں لکھ دیں اسی دجلہ کےدھاروں میں
....................
ان اشعار میں نیناں نےزندگی، محبت، عشق، چاہت، پیار اور اس سےپیدا شدہ کیفیات کی جو عکس ریزی کی ہےاس میں حیات و
کائنات کےسارےرنگ موجود ہیں، تاہم اسےنیلےرنگ سےزیادہ انس ہے، میرےنزدیک نیلی، نیلگوں،نیلمیں اور نیل کےساتھ نیناں نےجو ہم آہنگی پیدا کی ہےاور پھر درد کی نیلی رگوں نےجو مضمون آفرینی کی ہےاس کےتناظر میں یہ بات سامنےآتی ہےکہ اس نےنیلےرنگ سےاپنی شاعری میں ایک نیا انداز اور نیا طرزِ ہنر پیدا کیا ہےجو حرفی اور معنوی دونوں اعتبارات سےنہ صرف دیکھنےمیں بھلا معلوم ہوتا ہےبلکہ اس کےحسن کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہےاور اس کےظاہر و باطن کےموسموں کا بھی ادراک ہو جاتا ہے،
یوں دیکھیں تو نیناں کی غزل کا مزاج ہی بدل جاتا ہےاور نئی رُتوں کا ذائقہ محسوس ہوتاہے، نیناں کےمحسوسات کو اس زاویےسےدیکھین
ہےذرا سا سفر گذارا کر
چند لمحےفقط گوارا کر
آسمانوں سےروشنی جیسا
مجھ پہ الہام اک ستارا کر
دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ
کوئی پرچھائیں استعارا کر
کھو نہ جائےغبار میں، نیناں
مجھ کو اےزندگی پکارا کر
............
یہ خوبصورت اظہار نیناں کی اس طرح کی دوسری غزلوں میں بھی پھیلا ہوا ہےجن میں اس نےاستعارہ، پکارا، ستارا کرنےکی باتیں کی ہیں جن میں کوئی دوسرا شریکِ گفتگو ہےاور وہ بھی اس طرح:
مرےخیال کےبرعکس وہ بھی کیسا ہے
میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے
یونہی نہیں تمہیں نیناں نےروشنی لکھا
تمہارےساتھ ہمارا یہ رشتہ طےسا ہے
................
اس کیفیت کو نیناں نےایک اور رنگ میں یوں بیان کیا ہے:
رات دن سویروں سا خواب جلتا رہتا ہے
شام رنگ جنگل میں، میں ہوں اور مرا ساجن
................
محبت کرنےوالوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا
..............
اس طرح دیکھیں تو نینوں میں بھر جانےوالےدل میں رچنےکی بات محبت کرنےوالوں کی کہانی کو جنم دیتی ہےاور اس کہانی کا تسلسل نیناں کی نظموں میں بھی موجود ہےمگر فرق یہ ہےکہ وصال سےزیادہ فراق کا رنگ نمایاں ہے چنانچہ اس کی نظمیں ؛ کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا؛ کب تم مجھ کو یاد کروگی؛ فقط اک پھول؛ محبت کےثمر آور گلابوں کی داستاں سناتی ہیں مگر اس کےپس منظر میں درد کی جو لےاور دکھ کی جو ر وَ ہےوہ درد کی نیلی رگوں کی صورت میں عکس ریز ہوتےہیں، یہاں اس کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا اور اسلوب بھی مختلف ہےاور بین السطور جو کیفیت ہےاس کا اندازہ مشکل نہیں:
شام کےسناٹےمیں بدن پر کوٹ تمہارا جھولےگا
یاد کا لمس ٹٹولےگا
،گھور اداسی چھولےگا
اونچی اونچی باتوں سےتم
خاموشی میںشور کروگے
گیت پرانےسن کر ٹھنڈی سانسیں بھر کر بھور کروگے
اس پل شب کی تنہائی میں اپنےدل کو شاد کروگے۔۔۔
بولو مجھ کو یاد کروگے۔۔۔!!!
(کب تم مجھ کو یاد کروگے)
...............
کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
کبھی اڑتی چڑیاں دبوچنا
یہ کھرنڈ زخموں سےنوچنا
(کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا)
..............
ان نظموں میں موضوع اور اسلوب کا جو نیا پن ہےوہ نیناں کے بے پناہ تخلیقی شعور اور ندرت، فکر و خیال کی عکاسی کرتا ہےاور اس بات کےامکانات کی بشارت بھی دیتا ہےکہ لمحہءموجود میں اس نےجو کچھ لکھا ہےاور جو بھی اس نےکہا ہےوہ اسےاس قبیلےکی جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے معتبر ،توانا اور منفرد شاعرہ کےطور پر سامنےلاتا ہے، ابھی اسےبہت کچھ کہنا ہے، بہت کچھ دیکھنا ہےاور بہت کچھ سیکھنا ہے، جوں جوں وہ اس حال سےگزرتی جائےگی اس کا رنگ، ہنر،فکروفن نکھرتا اور سنورتا چلا جائےگا۔ آنےوالا وقت یقینی طور پر ‘نیلی رگیں‘ کےمطالعےسےسرشار ہوکر اسےاردو کی منفرد شاعرہ کےطور پر تسلیم کرےگا جبکہ میرےنزدیک اس وقت بھی وہ اردو کی منفرد شاعرہ ہےجس نےنسائیت کےحوالےسےنیناں کےنیلےچراغ روشن کیئےہیں، اس لیئےکہ نیلےرنگ کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوتی، آنکھوں میں سمندر کو تیراتی اور آسمان کو لہراتی رہتی ہےاور یہی حال نیناں کی شاعری کا ہے۔
تحریر:ڈاکٹر طاہر تونسوی

Wednesday, May 31, 2006

Darya-e-neel ka safar-Professoer Seher Ansari

دریائےنیل کا سفر
”در دکی نیلی رگیں“ میں سب سےاہم بات یہ ہےکہ شاعرہ کےاپنےشعری رویئےاور زندگی کی فکر میں ان کا جو سانچہ ہےوہ ذرا
مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سےپہلی بات تو یہ کہ اس کتاب کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن۔۔۔!اسی آپ دیکھ لیجئےتو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سےہٹنےکا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں، یہ اندازہ ہوتا ہےکہ انھوں نےکتاب کی جو عام طریقوں سےتیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سےپیش کیا ہے، پھر اس کےساتھ یہ ہےکہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہےکہ کلام پڑھنےکےساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنےگردو پیش کی جو زندگی ہےاس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں، انھوں نےجس طرح نثر میں بھی جوبات لکھی ہے، ایک بات یہ کہ مولسری کی شاخوں میں چھپادیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنےآپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتےہوئےمیں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنےلگتی ہوں، یہ ایک ایکویژن ہےکہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کےساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنےکی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کوایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئےدرد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہےکہ محسوسات کو تمثیلوں کےذریعےتصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہےکہ شاعرہ کےتخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں، میں نےجتنےاشعار منتخب کئے، سنائےجاچکےہیں، پھر بھی اس طرح ہےکہ: اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں تو اب اس طرح کی جو امیجری ہےآپ دیکھیں گےکہ پراندہ ہے، رہٹ، مورپنکھ،اوک میں پانی بھرنا، جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتےہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتےہیں کہ یہ بےجان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں: تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہےوہ بھی ایسےماحول میں رہتےہوئےجہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہےاور اس کےبارےمیں نظیر اکبر آبادی نےکہا ہےکہ ”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“ تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہےاصل چیز تو یہ ہےکہ آپ کےکانوں تک گلاب کےچٹکنےکی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نےمختلف حوالوں سےمحسوس کیا ہےاب جیسےہمارےمعاشرےکی زندگی، کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہی، Honour کےمختلف مسائل بھی آتےرہتےہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ: قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری
تو اب یہ جو ہےکہ:
لگاتار روتی ہےلہروں کی پائل
سدا جھیل میں ہیں شکاری شکاری
ان کی غزلوں اور نظموں میں جو نئےالفاظ کی تلاش ہےاس کو آپ رعایتِ لفظی نہیں کہہ سکتےبلکہ وہ اپنی معنویت کےساتھ ہیں جیسے” شکاری اور شکاری“ میں جو معنوی کیفیت ہےوہ پوری طرح واضح ہوجاتی ہے:
پیاسوں کےواسطےیہی نیناں بھرےبھرے
جلتےجھلستےتھر میں کبھی رکھ دیا کرو
ہے بلند آدمی ذہانت سی
ذہنیت پست ہےتو پستہ ہی
اب یہ جو بات لکھی ہےکہ میں سماجی مسائل کی بابت نہیں لکھتی، یہ سماجی زندگی تو خود بخود شاعرکےاندر آجاتی ہےاگر اس میں کوئی شعور موجود ہےکیونکہ کسی انتہائی باطنی اور داخلی تجربےکو یہ محسوس کریں کہ اس کا کوئی خارجی حوالہ نہیں ہےتو تجزیئےسےمعلوم ہوگا کہ وہ بھی کسی خارجی حوالےکےذریعےآپ تک پہنچا ہے:
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی
, ان کےاشعار میں بےساختگی کےساتھ مصرعوں کی جو پوری ساخت نظر آتی ہےاس میں پورا ایک سانس کا اتارچڑھاؤ جو کہ شاعری کےلئےبہت ضروری ہےوہ مصرعوں میں پوری طرح محسوس ہوتا ہے، اس پر کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں پر بھی کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں میں ایک اہم بات یہ ہےکہ خیال کی ہر لہر شروع سےآخر تک ایک رہےاور اس میں نامیاتی اکائی یا آنریری یونٹی ایک رہےاور وہ نامیاتی اکائی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے:
کڑی دھوپ میں چلتےچلتے
سایہ اگر مل جائے۔۔۔ تو!
اک قطرےکو ترستےترستے،
پیاس اگر بجھ جائےتو۔۔۔!
برسوں سےخواہش کےجزیرے
ویراں ویراں اجڑےہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر
کوئی اگر رکھ جائے۔۔۔تو!
بادل، شکل بنائیں جب
نیل آکاش پہ رنگوں کی
ان رنگوں میں اس کا چہرہ،
آکےاگر رک جائے۔۔۔تو!
خاموشی ہی خاموشی ہو،
دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتےکہتےگر،
کوئی سب کہہ جائےتو۔۔۔!
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو ،
سارےدکھوں سےہار کےجب
بیتےسپنےپاکےخوشی سے،
کوئی اگر مر جائے۔۔۔تو
!
یہ پوری اکائی ایک خیال کی موجود ہےاگر اس میں سےیہ نکال دی جائےتو یہ محسوس ہوجاتا ہےکہ اس میں ایک کمی واقع ہوگئی ہے، ان کےیہاں نظموں میں انفرادیت ہے، نیناں پہلےبھی یہاں آچکی ہیں جب بھی سنا اور اب بھی، یہ ثابت ہوا ہےکہ ان کےیہاں دوسروں سےمختلف ایک انفرادیت موجود ہےاور یہ دوسروں سےالگ لہجہ، اپنی شاعری کا راستہ، رخ اور انداز بنا رہی ہیں،
لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہےاور اس کا احساس ان کی اس نظم میں نمایاں ہےکہ:
اپنا راستہ ڈھونڈنا اکثر اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کےاس جنگل میں،
چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہے
جو لےکر روشن سی قندیل
کبھی کبھی یوں راہ بناے،
جیسےہو دریائےنیل۔۔۔!
تو یہ حقیقت ہےکہ انفرادیت کا راستہ شاعری میں بنانا، جہاں اتنی آوازیں ہیں اتنےلہجےہیں، تو یہ واقعی اک دریائےنیل کا ساسفر
ہے جو اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔۔۔ مجھےاس کی پوری امید ہےکہ یہ دریائےسخن اسی طرح بہتا رہےگا اور یہ دریائےنیل جو کہیں جاکر سفید بھی ہوجاتا ہےوہ اپنےرنگ اجاگر کرتا رہےگا ، میں ان کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نےایک بہت اچھا مجموعہ اردو شاعری کو عنایت کیا ہے۔۔۔شکریہ
پروفیسر سحر انصاری کراچی

Arts Council Karachi---Naqqash Kazmi

نقاش کاظمی
معزز خواتین و حضرات، آپ نےہمیشہ ہی دیکھا ہےکہ جب باہر سےکوئی صاحبِ قلم تشریف لاتا ہےاور کتاب بھی اس کی بغل میں ہو تو ہم یہی کوشش کرتےہیں کہ وہ کتاب منظرِ عام تک پہنچے، آرٹس کونسل کےتوسط سےاس کی رونمائی ہوسکے، ایسی ہی یہ تقریب ہےجس میں، میں آپ تمام حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں، شکر گزار ہوں آپ کا کہ آپ یہاں تشریف لائے، محترمہ فرزانہ خان نیناں پہلےبھی کئی بار تشریف لائیں اور اس مرتبہ بھی قابلِ تحسین ہیں کہ ان کی تشریف آوری سےبڑی بڑی بزمیں سج رہی ہیں، رونقیں دوبالا ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہےکہ وہ فیشن کی شاعرہ ہیں بلکہ ان کا طرزِ بیاں،طرزِ سخن، ان کا نیا پن، اچھوتا پن بےشمار اشعار ایسےہیں کہ جن کو پڑھ کےآپ کو احساس ہوگا کہ یہ نئی نسل کس انداز میں سوچتی ہےاور کیا طرزِ سخن اختیار کئےہوئےہے، وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہےکہ انھوں نےابتدائی تعلیم اور ثانوی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اس کےبعد جب یہ بیرونِ ملک تشریف لےگئیں تو بہت ہی جدید علوم سےوابستگی انھوں نےحاصل کی، جن میں میڈیا کےبہت وسیع تر حوالےملتےہیں ٹیلی کمیونیکیشن میں اور اس میں بڑا نیا پن ملتا ہے، اس دنیا میں جب ادب داخل ہوتا ہےتو وہ نئی نئی جہتیں معلوم کرتا ہےاور جہتیں دکھاتا بھی ہے، جب ادب اور سائنس یکجا ہوں تو بڑےبڑےمضامین سامنےآتےہیں، بہت سےلوگوں نےدیکھا ہےکہ بڑےبڑےمضامین لکھےگئےلیکن اس جدید دور میں جب مائیکروویو کمیونیکیشن آجائے، جب سیٹیلائٹ کی لہریں نیا نیا سماں پیدا کرتی ہیں، ایک ایک بٹن دباتےہی ایک سےدوسرےملک تک پہنچ جاتےہیں، ایک سےدوسرا منظر بدلتا ہے، یہ منظر نامےاتنی تیزی سےبدلتےہیں کہ اس میں فرزانہ جیسی شاعرہ ہی بہت کامیابی سےسفر کر تی ہیں اور کر رہی ہیں، میری دعا ہےکہ ان کو کامیابی حاصل ہوتی رہے، یہ خود جب اشعار پیش کریں گی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا کلام کتنا جدید اورمختلف ہے، میں شکر گذار ہوں ان کا کہ انھوں نےاپنی کتاب کی رسمِ اجراءآرٹس کونسل میں منعقد کروائی ہے، ان تمام بڑےلوگوں کی طرح جنھوں نےملک سےباہر جاکر غیر ممالک میں علم و ادب کی شمع روشن کی یہ ان کا بڑا پن ہےایک بڑا کارنامہ ہے، اردو زبان وادب کی خدمت کرنےوالوں میں ایک حصہ فرزانہ خان نیناں بھی ہیں کہ جو یہ مشعل روشن کئےہوئےہیں، میں انھیں اپنی نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کراچی آرٹس کاؤنسل

Nostalgic----Professor Shahida Hassan

نوسٹالجی
ایک مغربی مفکر نےکہا تھا کہ جب کوئی اپنا وطن چھوڑتا ہےتو وہ اپنےساتھ صرف
اپنا جسم لےجاتا ہےاور اپنی روح گویا اسی دھرتی پر چھوڑ جاتا ہے، حقیقتاََ دیکھا جائےتو ایسےتمام افراد جو ترکِ وطن کےجبر سےگزرتےہیں، کسی نہ کسی طور ساری عمر اپنی سرزمین سےوابستگی کی تمنا میں اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنےلوگوں سےہمیشہ جڑےرہنےکی ہر ممکن کوشش کرتےرہتےہیں، اگر یہ تجربہ کسی حساس عورت کےحصےمیں آجائےتو اس کی اہمیت اس لئےبھی دوچند ہوجاتی ہےکہ عورت اپنےمحسوسات کی نوعیت اپنی جبلتوں اور اپنےنفسیاتی ردِ عمل کی بنا پر مرد سےمختلف لیتی ہےاگر وہ اپنےذاتی احساسات کےبیان کسی پیرایہ اظہارکو اختیار کرنےپر قادر ہوجائےتو ہمیں اس کےشخصی تجربی، مزاج، معنی کی مختلف جہتوں کو سمجھنےکی کوشش کرنی چاہئےکیونکہ اس طرح بہت سی اصلی صداقتوں کو سامنےلانےمیں مدد ملتی ہے، فرزانہ خان نیناں نہ صرف دیارِ غیر میں آباد ہیں بلکہ اپنی کاوشوں اور عملی کاموں کےذریعےاردو زبان و ادب کی ترویج میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں، مجموعےمیں شامل ان کےکوائف بغور پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ کراچی کےمصروف تعلیمی ادارےسرسید کالج سے فرزانہ جب انگلستان پہنچیں تو زندگی کےمختلف شعبوں میں اپنی تعلیمی استعداد بڑھانےکےساتھ ساتھ انھوں نےبراڈ کاسٹر، کمپیئر، سوشل ورکر، شاعرہ ، کہانی نویس اور بزمِ علم و فن کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سےبھی اپنی متنوع صلاحیتوں اظہار کیا، ان کا نام انگلستان کےادبی حلقوں میں ایک معروف نام ہےلیکن اب جبکہ وہ اپنےاولین شعری مجموعے”درد کی نیلی رگیں“کےساتھ ہم سےاور آپ سےبھی متعارف ہورہی ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ کراچی کےادبی حلقوں سےان کا تعارف یقیناََ ایک دیرپا اور خوشگوار تاثر کا حامل ہوگا ، عبدالرحمٰن چغتائی نےمصوری کےفن کےحوالےسےلکھا: ’کہ کسی آرٹسٹ کی پہلی تصویر متعارف ہوتی ہےتو وہی دن فن کی دنیا میں اس کی پیدائش کا دن ہوتا ہے‘ نیناں نےبھی فن کی دنیا میں اپنےپہلےشعری مجموعےکی اشعت کےساتھ اپنےوجود کی آمد کا اعلان کیا ہےاور اس اعلان میں ایک مسرت اور خوشی موجزن ہے، کسی فن پارےکی اولین اظہار کی تشکیل اس اعتبار سےبھی اہم ہوتی ہےکہ اس میں فنکار کےاظہار کےابتدائی خدوخال طےپارہےہوتےہیں ، انہی خد وخال میں وہ آنےوالےزمانوں میں اپنےگوناگوں احساسات ،خیالات، نت نئےافکار اور زندگی کی سچائیوں کےانکشاف سےحاصل ہونےوالےادراک کےانوکھےاور دیرپا رنگ بھرتا چلا جاتا ہے، اگر نقشِ اول فطری اور بےساختہ ہو اور فنکار کی ا نفرادیت اور تجربےکی سچائی پر دلالت رکھتا ہو تو اس کی کوششیں قابلِ قدر اور قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں، درد کی نیلی رگیں کا مطالعہ کرتےہوئےکوئی بھی یہ محسوس کر سکتا ہےکہ ان اشعار میں جذبوں اور محسوسات کےنئےپن سےپیدا ہونےوالی تازگی بدرجہ اتم موجود ہے، ان کی ساری شاعری میں ایک گہرےدرد کی کیفیت لہریں لیتی ہےجسےوہ بار بار درد کی نیلی رگوں کی ترکیب کےتعلق سےاجاگر کرتی ہیں، پھر وہی نیلا رنگ دردو غم کےاظہار کی مختلف کیفیات کےبیان کےلئےمختلف تراکیب کےحوالےسےمسلسل نمودار ہوتا رہتا ہے، محسوس ہوتا ہےکہ اس رنگ کو نیناں کےمحسوسات کی دنیا سےایک خاص نسبت ہےاور ہمیں یہ رنگ جو دور تک پھیلےاس آسمان کا رنگ بھی ہےاور ٹھاٹھیں مارتےسمندر کا رنگ بھی ہے، کسی کی حسین آنکھوں کا رنگ بھی ہےاور جسم پر کسی چوٹ کی شدت کو اجگر کرنےوالا رنگ بھی ،اس طرح یہ رنگ اپنےمتضاد اثرات مرتب کرنےکی صلاحیت رکھتا ہےاور زندگی کی وسعت، نرمی، گداز اور شدت کی مختلف کیفیات کی عکاسی کرتا ہی، نیناں کی شاعری گمشدہ لمحوں کی متلاشی اور ان سےمنسلک یادوں سےپیوستہ زندگی کی آئینہ نما ہے، مگر ان یادوں میں ایک خوشگواری ہے،وہ لبوں سےآہ بن کر نہیں نکلتی بلکہ کسی تشنہ وجود پر بارش کےشبنمی قطروں کی طرح آہستہ آہستہ ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، یہ یادیں گذری ہوئی شاموں اور کھوئےہوئےدنوں کی یادیں ہیں اور خواب ہوجانےوالےدلپسند انسانوں اور محبت کرنےوالی گمشدہ ہستیوں کی یادیں ہیں، جن کو وقت نےاپنی سیاہ چادر میں لپیٹ کر اوجھل کردیا ہے، اپنےوطن اپنےگھر اپنی مٹی اپنی گلیوں اور اپنےآنگن کی سمت لے جانے والے خوابناک اور بےانت رستےپر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور یادوں کی کرچیاں چنتی رہتی ہیں، یوں اپنےدل کو زخم زخم کیئےجاتی ہیں:
ترےخیال سےآنکھیں ملانےوالی ہوں
نئےسروپ کا جادو جگانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
زرد پتوں میں کسی یاد کےجامن کےتلے
کھیلتےرہتےہیں بچپن کےچہکتےموسم
روز پرچھائیاں یادوں کی پرندےبن کر
گھر کےپچھواڑےکےپیپل پہ اتر آتی ہیں
کان میں ،میںنےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم نرم مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
چل دیا ساتھ ہی میرےتری یادوں کا ہجوم
راہ سےزیست کی تنہا جو گزرنا چاہا
فرزانہ کی تمثالوں اور امیجز کی ابھرتی دنیا ، خیالوں، خوابوں، اتھاہ محبتوں اور انمٹ یادوں کی دنیا ہے، ابھی ان میں زندگی کی تلخیاں شامل نہیں ہیں ، انھوں نےگرچہ زندگی کےمختلف روپ دیکھےہیں مگر گزرتےہوئےروز و شب میں کچھ کھونےاور کچھ پانےکی آرزو کرتےہوئےاپنےسفر اور قیام کی منزلوں میں انھوں نےاپنےباطنی وجود کی آسودگی کےلئےکچھ ایسےاہتمام کر رکھےہیں کہ ان کےیہاں محرومی، اداسی، حزن و ملال کی کیفیات کےبجائےسرشاری اور شادمانی کا احساس نمایاں رہتا ہے:
خواہشیں ہوش کھوئےجاتی ہیں
درد کےبیج بوئےجاتی ہیں
انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
کتنی پیاری ہیں چاندنی راتیں
تم کو دل میں سموئےجاتی ہیں
خیال نیناں اڑی جو نیند تو اک جاں فزا
خوشبو لگا بہار لگا روشنی لگا
اس شاعری میں ایک مسلسل نوسٹالوجی ہے، یہی وہ کیفیت ہےجسےانھوں نےاپنی
خوبصورت نثری تحریر میں ’میری شاعری‘ کےعنوان کےساتھ کتاب میں شامل کیا ہے، سچ پوچھئےتومجھےیہ ساری تحریر نیناں کی غزلوں اور نظموں کی خوبصورت تشریح کےمترادف محسوس ہوئی ہے،یہاں ہم دو دنیاؤں میں بٹےہوئےناآسودہ وجود سےملتےہیں جو ہمیں اپنی یادوں کےطلسم میں جکڑ لیتا ہے۔۔۔ نیناں اپنی شاعری کےبارےمیں کہتی ہیں کہ یہ میری ایک اپنی دنیا ہےجہاں میں سب کی نظروں سےاچانک اوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، میری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائےمیری اپنی راہِ فرار کی جانب جاتی ہے، اس شاعری میں اس پیپل کےدرخت کا بھی ذکر ہےجس کےپتوں کی پیپی بنا کر وہ شہنائی کی آواز سنا کرتی تھیں اور بھوبھل میں دبی آم کی گٹھلیوں کا ذکربھی ہےاور تتلیوں کےپروں پر لکھےچہروں،گڑیوں کےکھونےوالےچہروں، گوندھےجانےوالےپراندوں، تکئےکےتلےرہنےوالےخطوں،اور سپاری کاٹنےوالےسروتوں کا ذکر بھی ہے، یہ سب کسی ایک ہی خواب کی مختلف سمتیں اور کسی ایک ہی خیال کےمختلف راستےہیں جو ایک دوسرےمیں گم ہو ہو کر بار بار نکل آتےہیں، نیناں نےاسی رستےکو اپنےلئے منتخب کیا ہےاور اسی سےوابستگی نبھاتےہوئےوہ زندگی کا سفر کررہی ہیں، کہتی ہیں : زندگی کےہزار رستےہیں میرےقدموں کا ایک رستہ ہے ایک اور جگہ کہتی ہیں:
ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں میں میری کوئی جلوہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسےقطرہ ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
نیناں کی شاعری اپنےلفظی پیکر تراش رہی ہیں ، لفظ لفظ سےگلےمل رہےہیں، تراکیب وضع ہورہی ہیں، شعری زبان اپنےخدوخال ترتیب دینےلگی ہے، اس تمام اظہار میں یادوں اور خیالوں کی دھنک بھی ہےاور سچ کی خوشبو بھی ۔۔۔۔
یہ سب شاعر کےاندر کی دنیا ہے، اس میں ابھی خواہش کی دنیا کے رنگ کم کم ہیں، فرزانہ وطن سےدور ایک ایسےدیار میں رہتی ہیں، جہاں زندگی اور اس کےمختلف مظاہر ہماری اس روایتی دنیا سےبہت آگےکےہیں، وہ یقیناََ ایک جدید معاشرےکےبہت سےپسندیدہ اور نا پسندیدہ مناظر سےگزرتی ہوں گی، سماجی مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہوگی، زندگی کےبہت سےپہلو اپنی جانب متوجہ کرتےہوں گے، نیناںکی خوبصورت سوچوں کےلا متناہی سلسلوں نےان کےلہجےکو بہت سی تلخیوں سےبچا رکھا ہے، مگر پھر بھی ان کےیہاں شکوےکےانداز میں بہت نرمی کےساتھ کچھ اس
طرح کی کیفیات کا اظہار گونجتا ہے:
ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بوند کو ترستا ہے
احتیاطاََ ذرا سا دور رہیں
اب تو ہر ایک شخص ڈستا ہے
نیناں کا ذہن اس اعتبار سےبہت زرخیز ہےکہ ان کےپاس بات کو اپنےانداز میں کہنےکی خواہش جھلکتی ہےاور خیالات و مضامین میں ایک نئےپن کی جستجو نمایاں ہے: اداسیوں کےعذابوں سےپیار رکھتی ہوں نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں کہاں سےآئےگا نیلےسمندروں کا نشہ میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں میں روشنی چیکی لپک برقرار رکھتی ہوں مجھےامید ہےنیناں اپنی نظموں اور غزلوں کےاس ا سلوب اور لب و لہجےکو مزید نکھارنےمیں کامیاب ہوں گی اور جس عہد میں وہ زندہ ہیں اور جس تہذیب کےدرمیان رہ رہی اور بس رہی ہیں وہاں کی زندگی کےتازہ تر مشاہدات اور تجربات کےبارےمیں بھی لکھیں گی۔
پروفیسر شاہدہ حسن

Khush Awaz Peshkaar.-Aqeel Danish

تذکرہ کتابوں کا
۔۔۔”درد کی نیلی رگیں“ ۔۔۔
فرزانہ خان نیناں ہوا کےدوش پر سنی جانےوالی آواز
”فرزانہ خان نیناں“ بڑی پہلو دار شخصیت کی مالک ہیں،
خوش آوازپیشکار، خوش فکر شاعرہ اور پُر اَثر کہانی کار،
اپنی شعری کاوشوں کو انہوں نے”درد کی نیلی رگوں“ کےنام سےاردو دنیا کی نذر کیا ہے،
یہ شعری مجموعہ بلا مبالغہ مغرب میں شائع ہونےوالی کتابوں میں ایک خوبصورت ترین کتاب ہے،
اسےیہ خوبصورتی اور نفاست عطا کرنےمیں فرزانہ نےجو کاوشیں کی ہوں گی ان کا احساس وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نےاپنی تخلیقات کتابی شکل میں منضبط کی ہیں،
فرزانہ نیناں نےاس مجموعےکو نہ صرف صوری شکل ہی میں منفرد نہیں بنایا ہےبلکہ معنوی سطح پر بھی انفرادیت عطا کی ہے،
اس مجموعےمیں شامل غزلیں اور آزاد نظمیں اپنےاندر فکر و معانی کا ایک جہان لئےہوئےہیں اور قابلِ قدر اَمر یہ ہےکہ یہ جہان
فرزانہ نیناں نےخود بسایا ہے
ان کےہر مصرع اور ہر شعر پر ان کےرنگ کی چھاپ ہے، یہ اعزاز اور یہ افتخار بہت کم سخنوروں کو نصیب ہوتا ہے۔
نیناں کےبسائےہوئےاس جہان میں رنگ ہے، خوشبو ہے، چاندنی ہے، موسیقی ہے، جھرنوں کا ترنم ہے، پرندوں کی چہچہا ہٹ ہےاور اشکوں کے موتی ہیں،
آپ بھی اس جہان پر ایک نظر ڈالیئے---
-------------
مثالِ برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں۔
ہوائےتند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں
روز دیکھا ہےشفق سےوہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہےکہ تم میرےہو میرےہو نا
میں اپنےدل کی گواہی کو کیسےجھٹلاوں
جو کہہ رہا ہےمرا دل وہ بلکل ایسا ہی
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی۔
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
ممکن ہےاس کو بھی کبھی لےآئےچاند رات
۔کچھ پھول سونےگھر میں کبھی رکھ دیا کرو
زندگی کےہزار رستےہیں
میرےقدموں کا ایک رستہ ہی
نیناں اُڑی جو نیند تو اک جانفزا خیال۔
۔۔خوشبولگا۔۔بہار لگا۔۔۔روشنی لگا
بتاو آگ بجھانےکوئی کہاں جائے۔۔
۔لگائےآگ اگر ماہتاب پانی میں
نیناں کا لہجہ خالص نسائی ہے، ان کا اور پروین شاکر کا تعلق ایک ہی درسگاہ سےرہا ہے ممکن ہےکہ شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نےپروین شاکر کےرنگ
سےتاثر حاصل کیا ہو، چند مثالیں دیکھئے
-----------
میری خاموشی کو چپکےسےسجادو آکر۔
۔۔اک غزل تم بھی مرےنام کبھی لکھونا
اسےجو دھوپ لئےدل کےگاؤں میں اترا۔
۔۔رہٹ سےچاہ کا پانی پلانےوالی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس
کی۔۔۔ملائم ، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
پیار کی کہانی میں سچ اگر ملےنیناں
عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاوں سے
-----------------
غزلوں کی طرح نیناں
کی نظموں میں بھی ایک خاص رنگ اور انداز ہی، جسےنیناں کا رنگ کہا جا سکتاہے۔
”درد کی نیلی رگیں“ میں نہ معاشرےکی
بےانصافی کاشکوہ ہےنہ ظلم و ستم پر واویلا ، نہ معاش کا رونا ہے، نہ مشین کی کرخت آوازوں کا ماتم، اس میں تو عشق کی تپش ، محبت کی آنچ ہے، وفا کی خوشبوہےاور آنچل کی ٹھنڈی ہوا۔۔۔!
ہمیں یقین ہےکہ اس زر گزیدہ فضا میں نیناں کی شاعری تھوڑی
دیر کےلئےہی سہی اُس جہان میں لےجائےگی جہاں چاند ستارےاور جگنو انسان کے تاریک دل کو اُجال دیتےہیں۔
------------
تبصرہ نویس:عقیل دانش، لندن
---------
کتاب ملنےکا پتہ: ای میل کےذریعے
:farzananaina@yahoo.co.uk قیمت: ٨ پونڈ
--------
ناشر: لوحِ ادب پبلیکیشنز، کراچی

Rafi-ud-din Raaz-نیلی فکر کی شاعرہ

نیلی فکر کی شاعرہ
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ انمیں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے،موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں،یہی وجہ ہےکہ ہر پوداپورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے،آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے،ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے ’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا! آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے،فرزانہنےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے
: آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سےچھپائےبیٹھی ہوں
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
یہ اشعار اس بات کی گواہی دےرہےہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپورادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا
تعلق یقین سےبھی ہےاور بد گمانی سےبھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہےتو کبھی اس کا وجود زمانےکی آواز سننےکےلئےہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہےتو کبھی انکسار کی نرمی اسےاوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے،فرزانہ کےیہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کےیہاں ملتےہیں، فرزانہ کےیہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سےاس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کےقدم نہ چومے۔ ہجر ایک ایسی حقیقت ہےجس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کےدامن سےلپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنےطور پر کرتا ہے، فرزانہ نےہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہےاور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:
یاد میری بھی پڑی رہتی ہےتکیئےکےتلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں
اسے میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنےسےمکمل ہوگئی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
مرےقریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کےبوٹےتھی
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہےنیناں، نیناں
ہےلبریز دل انتظاروں سےمیرا
میں کتبےکی صورت گلی میں گڑی ہوں
انھیں زینوں پہ چڑھتےپہلےکیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹےچبھوتی ہے
فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنےکا ہنر جانتی1 ہےاور یہ حدت صفحہءقرطاس تک ہی محدود
نہیں ہےبلکہ یہ قاری کےرگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کےساتھ چھوتی ہے، کسی جذبےکی حدت کو قاری کےدل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتےہیں،
فرزانہ کےاشعار کی جو زیریں رو ہےاُس میں اک ایسی حجاب اور شرم ہےجو اپنےاظہار کےلئےکچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن فرزانہ نےدانستہ اسےایسا کرنےسےروک رکھا ہےاور اس کی وجہ ہے۔۔۔
’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہےوہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے،اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سےقائم ہے، اس زمین سےاس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنےوالی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے : جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ، یہ کیسی ہجرت ہےجسم وہاں ، روح یہاں! فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کےگرد گھومتی ہےان میں بیشتر لفظوں کےبارےمیں کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ یہ شاعری کےلفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہےاگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنک میں ڈھال دے تو! انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئےفرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے
: میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہےاور فرزانہ نےلفظیات کےجس دشت میں پاؤں رکھا ہےوہ یقیناََ انتہائی محنت طلب کام ہے۔ اس مجموعےمیں حمد، نعت سےلےکر آخری نظم تک فرزانہ کا لہجہ کم و بیش ایک جیسا ہے، اس سےپہلےکہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سےکچھ اور اشعار سنئے
: مجھےقوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبےسفر کرتی ہیں ڈاروں میں
میرےجگنو سےپر سلامت ہیں
میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی
فون پر تم ملےہو مشکل سے
گفتگو کو تمام مت کرنا
ابھی تک یاد ہےاس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھےپچھلےجنم میں
طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہءدل کا
ٹہر جا تو اسےبھی اس طرف دوگام آنےدے
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سےمرا نظارہ کر
فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونےکےروشن امکانات موجود ہیس پہلی نظم ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ ملاحظہ کیجے،
: آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہےجیتا
چند لائنیں مختلف نظموں سے:
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنےپیکر کی سبز رُت پر
بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سےتاریک خواب بُنتی
----------
چاندنی کےہالےمیں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کےیوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کےسُر کسےسناتی ہو
کھڑکیوں سےبرکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو
سارےسپنےآنکھوں سےایک بار بہنےدو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنےدو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنےدو!
------------
:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سےکھول کےدل کےپٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔
----------
اور ایک نظم آخری خواہش سےکچھ لائنیں دیکھئے
: ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بےسدھ بےکل
لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرےآکر پل پل
سیپی چنتےچنتےمیں بھی
جانےکیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو اکہ اس میں
روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ ک میرےاس کی حرارت
دھیرےدھیرےتاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا
، اک اوندھی کشتی کےنیچے تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔
---------
چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہےجس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ میں موجود ہے، ’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعےنےحرف کےامکانات کےدَر وا کئےہیں، فرزانہ کو منزل تک پہنچنےکےلئےابھی سفر طےکرنا ہے، مجھےامید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئےکہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے، وہ اعتماد جو کچھ کر لینےاور کچھ پالینےکےلئےضروری ہوتا ہے۔
رفیع الدین راز کراچی

Monday, May 29, 2006

Titliyon Ki Fasal,Hyder Sherazi-تتلیوں کی فصل۔حیدر شیرازی

تتلیوں کی خود رَوفصل
مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائی،کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہی، لفظ سےتصویر تک سارا
کھیل تو نقطےکےپھیلاو کا ہی، جیسےبیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں، اِ س کےپھیلاوکا نتیجہ قلم اور مو قلم کےفرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہی۔ میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطےکو تصویر کرنا ہےبشرطیکہ نقطےسےکشید کا یہ عمل اپنےپیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کےنتیجےسےزیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطےکا پھیلاو کھوجنا ہی، مجھےعادت ہےمنظروں سےنابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکےباوجود، نابودی کےخوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہی، مجھےمیری پیدائش کےواقعےمیں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہی۔ زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہی، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتاہےاور مضمون سنبھالنےمیںبحر کا سانس پھولنےلگتا ہی۔ نقطےکےپھیلاوسےہستی کےجغرافیےتک کوئی راز ہےجسےذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہی، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاو ہےکہ وہ راز تصویر نہ ہونےپائےتو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائی، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہی، اُس کےہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہےجبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہی، اُس کےہاں لفظ سےاُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہی، میرےہاں لفظ کےساتھ گھمسان کےایک کارن کی سی کیفیت ہی، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہی، میری طرف لفظ صدائےماتم سےگونجتا عزاخانہ ہےیا فلک شگاف قہقہ۔۔۔! کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئےمتقابلین سےکما حقہُ آگاہی لازم ہی، یہاں تو المیہ ہےکہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنےوالےکی خبر ہی نہیں، خود سےآگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہی، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑےجانا ہی، سیدھےرستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہی۔ جوئےسخن جاری کرنےکو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہی، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے،لپکتےشعلوں کا حجم اور لپک سختی سےبراہِ راست متناسب ہوتا ہی، فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتےستاروں اور پھولوں جیسےہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہےیا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کےہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں،مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائےوہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہی، اُس کےمضامین میں نسوانیت سےمخصوص ترتیب و تنظیم ہی۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتےدکھائی پڑتےہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنےکی عمر میں آنکھیں زندگی کی بےہنگم برہنگی کا شکار ہوئیںتو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسےبرف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرےکو قلم سےگدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔ مجھےہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہی؟ مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنےپر کیوں مُصر ہی؟ مجھےتو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہےیا زہر پیالےسےفارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہی، ہوسکتا ہےکہ فرزانہ کےہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سےکھنچی کمان ہوا،وجود سےبےکراں خلا میں ڈولتےآسمانی ٹکڑوں میں سےایک دکھائی پڑ تا ہو! نقطےکےپھیلاو میں جہاں آسمان آپڑےوہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہی، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئےکافی ہوتی ہےلیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائےتو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ فرزانہ کےہاں نقطےکےمزیدپھیلاو کےسارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہی، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کےواقعےمیں اسیر ہر شخص کا المیہ ہی، اُس کا کمال یہ ہےکہ اُس نےیہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتےہوئےجھیلا ہی، ہم پر واجب ہےکہ ہم
اُس کےحوصلےمیں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ
اُسےدیانتداری سےداد دیں
۔
حیدر شیرازی۔۔۔اسلام آباد