Thursday, June 01, 2006

سوندھی خوشبو

Pehli Khushi-پہلی خوشی

Misaal E Barg - مثال برگ




Nisaiyat,Naina,Neele Chiraagh-Dr.Tahir Taunswi-نسائیت،نیناں،نیلے چراغ

نسائیت، نیناں اور نیلےچراغ
اردو شاعری کا مطالعہ کریں اور اخبارات و رسائل کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہےکہ ایک سیلِ شاعرات ہےکہ بہتا چلا آرہا ہےاور شعری مجموعوں کا یہ عالم ہےکہ چھپتےچلےجارہےہیں،مشاعرےہوں یا تقریبات خواتین ہیں کہ چھائی چلی جارہی ہیں اور اس فعل
حالِ جاریہ میں معیار کا تجزیہ کریں تو گراف اونچا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صورتِ حال کچھ اور دکھائی دیتی ہے:
کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتےہیں کچھ
تاہم عہدِ موجود میں ایسی شاعرات بھی ہیں جن کی بدولت اردو شاعرات کا بھرم قائم ہےاور آٹےمیں نمک کےبرابر سہی مگر ان کےاظہار کا اپنا ذائقہ ان کےوجود کی واضح نشاندہی کرتا ہےاس حوالےسےادا جعفری، پروین فنا سید، شبنم شکیل، پروین شاکر، شاہدہ حسن، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، منصورہ احمد، شاہین مفتی، سارہ شگفتہ اس میں چند اور جینوئین شاعرات کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
خواتین قلم کاروں کےاس قبیلےمیں فرزانہ نیناں بھی انفرادی شان کےساتھ شامل ہوئی ہےاور اس کےکلام ِ غزل و نظم کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بہت کم عرصےمیں اعتناد اور پوری تخلیقی توانائی سےاپنا شعری سفر طےکرنا شروع کیا ہےاور اس کےشعور و آگہی کی ندی مدھم سروں سےبہتی ہوئی دل و دماغ کو ٹھنڈک اور فکر و نظر کو تازگی عطا کرتی ہےاور اس کی غزل اور نظم کامطالعہ اس بات کا اعلان نامہ بھی ہےکہ اس کےپس منظر میں نیناں ہی بول رہی ہے،
یہ اس کی اپنی آواز ہےجس نےتخلیقی چشمےمیں ارتعاش پیدا کیا ہے۔اس کا شعری ورثہ اپنا ہی ہے، اس کےلب و لہجہ میں جو گداز ، اپنائیت، درد اور شیرینی ہے وہ ایک عورت کےاسلوب کی نشاندہی کرتےہیں۔ اس تناظر میں اس کےشعری مجموعی ‘نیلی رگیں‘ کا نام بھی پوری شعری معنویت کےساتھ سامنےآتا ہےاور جس طرح درد کا رگوں سےگہرا تعلق ہےاور پھر رگوں پر چوٹ (خواہ وہ ہلکی سی کیوں نہ ہو) لگتی ہےاس کی وجہ سےجو نیلاہٹ آجاتی ہےاس دکھ اور درد کی توجیہہ اور اس کے پیدا ہونےکی وجوہات کا تذکرہ لفظوں کےحوالےسےجس طرح نیناں نےکیا ہےاور سماج کی ساری کیفیات کو جیسے بھرپور انداز میں وہ سامنےلائی ہےاس میں اس کا ذاتی تجربہ ،مشاہدہ اور مطالعہ ایک مثلث شکل اختیار کر لیتا ہےاور پھر اس کی سوچ اور فکر کےدھارےرنگا رنگ موضوعات کی صورت میں شعر کےقالب میں ڈھل جاتےہیں،
یہاں دیدہءبینا کی فرزانگی بھی ہےاور عشق و محبت کی دیوانگی بھی، تخلیقی اظہار کےاس تنوع میں نیناں کی نسائیت نےبڑا کردار ادا کیا ہےجو اس کی ذات پر اعتماد سےچھائی ہوئی ہے۔ جس طرح ہندی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں عورت ہی عاشق کا روپ دھارتی ہے، نیناں کےہاں بھی یہی رویہ ہےکہ وہ دیوانگیءعشق میں سسی کی طرح نہ صرف مارو تھل کی خاک چھانتی ہے بلکہ فراقِ پُنل میں رات بھر اپنی پلکوں کو جھپکنےبھی نہیں دیتی اور یہ اس کی سچی، حقیقی اور بےلوث محبت کا ثبوت ہے،
وہ اپنےمحبوب کی یاد کو سینےسےلگائےاس کےخیال میں گم رہتی ہےاور اپنی ذات کو اس کی ذات میں اس طرح چھپا لیتی ہے جیسے کوئی کسی کی پناہ لےرہا ہو، اس کےیہاں وصلِ یار کی خواہش اورتمنا ضرور ہےمگر اس ہجر کی آگ میں جلنےکا جو عمل ہےاس کا لطف ہی کچھ اور ہے، یہی وجہ ہےکہ وہ یادِ یارِ مہرباں کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتی ہے، اس کےاظہار کی یہ جھلکیاں دیکھیں:
تلاش بستی میں کرتا ہےجس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
.............
رہیں گےنام وہ پیڑوں پہ نقش صدیوں تک
چڑھا کےجن پہ بہاروںنےچھال رکھی ہے
.................
نیلگوں جھیل میں ہےچاند کا سایہ لرزاں
موجِ ساکت بھی کوئی آئےسنبھالےاس کو
...................
اپنےبےسمت بھٹکتےہوئےنیناں کی قسم
کتنےخوش بخت ہیں سب دیکھنےوالےاس کو
..................
اب کےٹس سےمس نہیں ہونا ہوا کےزور پر
بےدھڑک لکھےوہ ان پتوں پہ رائےبےحساب
نیلمیں نیناں میں جلتےبجھتےہیں نیلےچراغ
خالی کمرےمیں چلےآتےہیں سائےبےحساب
.......................
نیلےسمندروں کا نشہ بڑھ نہ جائےگا
موتی نکال لاؤں اگر بےشمار میں
....................
کبھی ہم نیل کےپانی میں اس انداز سےڈولیں
کہ اپنی داستاں لکھ دیں اسی دجلہ کےدھاروں میں
....................
ان اشعار میں نیناں نےزندگی، محبت، عشق، چاہت، پیار اور اس سےپیدا شدہ کیفیات کی جو عکس ریزی کی ہےاس میں حیات و
کائنات کےسارےرنگ موجود ہیں، تاہم اسےنیلےرنگ سےزیادہ انس ہے، میرےنزدیک نیلی، نیلگوں،نیلمیں اور نیل کےساتھ نیناں نےجو ہم آہنگی پیدا کی ہےاور پھر درد کی نیلی رگوں نےجو مضمون آفرینی کی ہےاس کےتناظر میں یہ بات سامنےآتی ہےکہ اس نےنیلےرنگ سےاپنی شاعری میں ایک نیا انداز اور نیا طرزِ ہنر پیدا کیا ہےجو حرفی اور معنوی دونوں اعتبارات سےنہ صرف دیکھنےمیں بھلا معلوم ہوتا ہےبلکہ اس کےحسن کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہےاور اس کےظاہر و باطن کےموسموں کا بھی ادراک ہو جاتا ہے،
یوں دیکھیں تو نیناں کی غزل کا مزاج ہی بدل جاتا ہےاور نئی رُتوں کا ذائقہ محسوس ہوتاہے، نیناں کےمحسوسات کو اس زاویےسےدیکھین
ہےذرا سا سفر گذارا کر
چند لمحےفقط گوارا کر
آسمانوں سےروشنی جیسا
مجھ پہ الہام اک ستارا کر
دھوپ میں نظم بادلوں پر لکھ
کوئی پرچھائیں استعارا کر
کھو نہ جائےغبار میں، نیناں
مجھ کو اےزندگی پکارا کر
............
یہ خوبصورت اظہار نیناں کی اس طرح کی دوسری غزلوں میں بھی پھیلا ہوا ہےجن میں اس نےاستعارہ، پکارا، ستارا کرنےکی باتیں کی ہیں جن میں کوئی دوسرا شریکِ گفتگو ہےاور وہ بھی اس طرح:
مرےخیال کےبرعکس وہ بھی کیسا ہے
میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے
یونہی نہیں تمہیں نیناں نےروشنی لکھا
تمہارےساتھ ہمارا یہ رشتہ طےسا ہے
................
اس کیفیت کو نیناں نےایک اور رنگ میں یوں بیان کیا ہے:
رات دن سویروں سا خواب جلتا رہتا ہے
شام رنگ جنگل میں، میں ہوں اور مرا ساجن
................
محبت کرنےوالوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا
..............
اس طرح دیکھیں تو نینوں میں بھر جانےوالےدل میں رچنےکی بات محبت کرنےوالوں کی کہانی کو جنم دیتی ہےاور اس کہانی کا تسلسل نیناں کی نظموں میں بھی موجود ہےمگر فرق یہ ہےکہ وصال سےزیادہ فراق کا رنگ نمایاں ہے چنانچہ اس کی نظمیں ؛ کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا؛ کب تم مجھ کو یاد کروگی؛ فقط اک پھول؛ محبت کےثمر آور گلابوں کی داستاں سناتی ہیں مگر اس کےپس منظر میں درد کی جو لےاور دکھ کی جو ر وَ ہےوہ درد کی نیلی رگوں کی صورت میں عکس ریز ہوتےہیں، یہاں اس کا لب و لہجہ بھی بدلا ہوا اور اسلوب بھی مختلف ہےاور بین السطور جو کیفیت ہےاس کا اندازہ مشکل نہیں:
شام کےسناٹےمیں بدن پر کوٹ تمہارا جھولےگا
یاد کا لمس ٹٹولےگا
،گھور اداسی چھولےگا
اونچی اونچی باتوں سےتم
خاموشی میںشور کروگے
گیت پرانےسن کر ٹھنڈی سانسیں بھر کر بھور کروگے
اس پل شب کی تنہائی میں اپنےدل کو شاد کروگے۔۔۔
بولو مجھ کو یاد کروگے۔۔۔!!!
(کب تم مجھ کو یاد کروگے)
...............
کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
کبھی اڑتی چڑیاں دبوچنا
یہ کھرنڈ زخموں سےنوچنا
(کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا)
..............
ان نظموں میں موضوع اور اسلوب کا جو نیا پن ہےوہ نیناں کے بے پناہ تخلیقی شعور اور ندرت، فکر و خیال کی عکاسی کرتا ہےاور اس بات کےامکانات کی بشارت بھی دیتا ہےکہ لمحہءموجود میں اس نےجو کچھ لکھا ہےاور جو بھی اس نےکہا ہےوہ اسےاس قبیلےکی جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے معتبر ،توانا اور منفرد شاعرہ کےطور پر سامنےلاتا ہے، ابھی اسےبہت کچھ کہنا ہے، بہت کچھ دیکھنا ہےاور بہت کچھ سیکھنا ہے، جوں جوں وہ اس حال سےگزرتی جائےگی اس کا رنگ، ہنر،فکروفن نکھرتا اور سنورتا چلا جائےگا۔ آنےوالا وقت یقینی طور پر ‘نیلی رگیں‘ کےمطالعےسےسرشار ہوکر اسےاردو کی منفرد شاعرہ کےطور پر تسلیم کرےگا جبکہ میرےنزدیک اس وقت بھی وہ اردو کی منفرد شاعرہ ہےجس نےنسائیت کےحوالےسےنیناں کےنیلےچراغ روشن کیئےہیں، اس لیئےکہ نیلےرنگ کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوتی، آنکھوں میں سمندر کو تیراتی اور آسمان کو لہراتی رہتی ہےاور یہی حال نیناں کی شاعری کا ہے۔
تحریر:ڈاکٹر طاہر تونسوی

Raat Bhar Dekhey- رات بھر دیکھے پہاڑوں پہ برستے موسم