Monday, May 29, 2006

Titliyon Ki Fasal,Hyder Sherazi-تتلیوں کی فصل۔حیدر شیرازی

تتلیوں کی خود رَوفصل
مدعا لفظ ہو یا تصویر کیا جائی،کوششِ اظہار انسان کا حق نہیں بلکہ اس پر واجب ہی، لفظ سےتصویر تک سارا
کھیل تو نقطےکےپھیلاو کا ہی، جیسےبیج میں درخت کا ہونا امرِ واقعہ ہےا ُسی طرح نقطےمیں تصویر اور لفظ ہر دو موجود ہوتےہیں، اِ س کےپھیلاوکا نتیجہ قلم اور مو قلم کےفرق کی بنا پر مختلف ہو سکتا ہی۔ میرےخیا ل میں شاعری، قلم سےنقطےکو تصویر کرنا ہےبشرطیکہ نقطےسےکشید کا یہ عمل اپنےپیچ و خم میں رقص کی سی ترتیب رکھتا ہو، ایسی ترتیب جو کوشش کےنتیجےسےزیادہ خود رو محسوس ہوتی ہو کہ کوشش جہانِ ممکنات کا تمدن ہےاور شاعری خدشہ و امکان، ہر طرف نقطےکا پھیلاو کھوجنا ہی، مجھےعادت ہےمنظروں سےنابود پس منظروں تک بےارادہ خیال آرائی کی، منظر کےحدود اربعےمیں واقع ہونےکےباوجود، نابودی کےخوف کو مجھ میں دھڑکتا چھوڑ دیا گیا ہی، مجھےمیری پیدائش کےواقعےمیں قید رکھ کر میری نمو کی حد بندی کردی گئی ہی۔ زمان و مکان کی ردیف میں پابند ہستی کےاس مصرع طرح پر طبع آزمائی کی گنجائش ہی کتنی ہی، قافیہ پیمائی میں مضمون دسترس سےنکل نکل جاتاہےاور مضمون سنبھالنےمیںبحر کا سانس پھولنےلگتا ہی۔ نقطےکےپھیلاوسےہستی کےجغرافیےتک کوئی راز ہےجسےذوقِ نظارہ سےاوجھل رکھا گیا ہی، شاعری نقطےکا اس قدر پھیلاو ہےکہ وہ راز تصویر نہ ہونےپائےتو بھی شعور کی سطح پر ثابت قرار پائی، مجھ میں اور فرزانہ خان میں بہت فرق ہےلیکن فرق کی یہ ساری بہتات بھی شاعرانہ ہی، اُس کےہاں لفظ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہےجبکہ مجھ پر تو لفظ چیختا برستا سنا جا سکتا ہی، اُس کےہاں لفظ سےاُنسیت کا تعلق صاف ظاہر ہی، میرےہاں لفظ کےساتھ گھمسان کےایک کارن کی سی کیفیت ہی، فرزانہ درد کو سسکیوں میں اور خوشی کو مسکراہٹوں میں لکھتی ہی، میری طرف لفظ صدائےماتم سےگونجتا عزاخانہ ہےیا فلک شگاف قہقہ۔۔۔! کوئی تقابلی مقصد ہرگز نہیں کہ تقابل کےلئےمتقابلین سےکما حقہُ آگاہی لازم ہی، یہاں تو المیہ ہےکہ رگِ جان کےقرب و جوار میں بسنےوالےکی خبر ہی نہیں، خود سےآگاہی کی ہر کوشش بھی انجامِ کار کسی بند گلی میں لا کھڑا کرتی ہی، زندگی یوں بھی موجود سےمعدوم کی بند گلی تک سرکنا ، رینگنا یا سرپٹ دوڑےجانا ہی، سیدھےرستےکی دریافت میں ہی کہیں عزم سفر مسلسل ہوکر دو گز زمین کا لقمہ بن جاتا ہی۔ جوئےسخن جاری کرنےکو سنگِ وجد پہ امکان کی تیشہ زنی تو ضروری ہی، سختئی روزوشب پہ جب بھی ضرب لگے،لپکتےشعلوں کا حجم اور لپک سختی سےبراہِ راست متناسب ہوتا ہی، فرزانہ کےہاں یہ شعلےآتش بازی سےکھلِتےستاروں اور پھولوں جیسےہیں، یہ اُس کا ضرب لگانےکا ہنر ہےیا روز و شب کی مہربانی کہ اُس کےہاں شعلوں میں الاو کی سی کیفیت نہیں،مجھےلگتا ہےکہ کسی نوک دار لمحےسےالجھ کر اُدھڑنےکےبجائےوہ کسی بچگانہ تجسس کےتحت تار تار کُھلی ہی، اُس کےمضامین میں نسوانیت سےمخصوص ترتیب و تنظیم ہی۔ مجھےاُس کےلفظ انگلیوں پہ بےارادہ دوپٹہ کھولتےدکھائی پڑتےہیں، لگتا ہےکہ خواب دیکھنےکی عمر میں آنکھیں زندگی کی بےہنگم برہنگی کا شکار ہوئیںتو ایک ایک پور میں حیا رنگ سچائیاں جیسےبرف ہو کر جم سی گئیں، اِدھر ضرب شعلہ ہوئی اور اُدھر وہ برف شبنم سی قطرہ قطرہ پگھلنےلگی، ایک ذرہ کسی ایسےقطرےکو قلم سےگدگدایا تو کاغذ پر تتلیوں کی خود رَوفصل اُگ آئی۔ مجھےہرگز علم نہیں کہ تتلیوں کی اِس فصل پر غالب رنگ نیلا کیوں ہی؟ مجھےتو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ ان تتلیوں کو درد کی نیلی رگیں کہنےپر کیوں مُصر ہی؟ مجھےتو آسمان کو نیلا دیکھنےکی عادت ہےیا زہر پیالےسےفارغ ہوکر سقراط کا آسمان ہو جانا میرا رومان ہی، ہوسکتا ہےکہ فرزانہ کےہاں آسمان ریزہ ریزہ زمین کی طرف بکھرتا ہو اور تحیر سےکھنچی کمان ہوا،وجود سےبےکراں خلا میں ڈولتےآسمانی ٹکڑوں میں سےایک دکھائی پڑ تا ہو! نقطےکےپھیلاو میں جہاں آسمان آپڑےوہاں خود آزمائی انجام نہیں ہوتی لیکن کوشش کی نوعیت بدل جاتی ہی، آسمان تک رسائی اس کی نیلاہٹ کی تردید کےلئےکافی ہوتی ہےلیکن اس رسائی میں اگر نقطےکا پھیلاو ہی آسمان ہوجائےتو رگوں کی نیلاہٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ فرزانہ کےہاں نقطےکےمزیدپھیلاو کےسارےامکان ستاروں کی طرح نہیں سورج کی طرح روشن ہیں، سات آسمانوں کا یہ سارا پھیلاو اس کی خواہش میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہی، درد کی نیلی رگوں کا یہ ہوشرُباجال اُس کا نہیں اپنی پیدائش کےواقعےمیں اسیر ہر شخص کا المیہ ہی، اُس کا کمال یہ ہےکہ اُس نےیہ المیہ لفظوں سےحوصلہ بَنتےہوئےجھیلا ہی، ہم پر واجب ہےکہ ہم
اُس کےحوصلےمیں برکت عطا کئےجانےکی دعا کےساتھ
اُسےدیانتداری سےداد دیں
۔
حیدر شیرازی۔۔۔اسلام آباد