Wednesday, May 31, 2006

Nostalgic----Professor Shahida Hassan

نوسٹالجی
ایک مغربی مفکر نےکہا تھا کہ جب کوئی اپنا وطن چھوڑتا ہےتو وہ اپنےساتھ صرف
اپنا جسم لےجاتا ہےاور اپنی روح گویا اسی دھرتی پر چھوڑ جاتا ہے، حقیقتاََ دیکھا جائےتو ایسےتمام افراد جو ترکِ وطن کےجبر سےگزرتےہیں، کسی نہ کسی طور ساری عمر اپنی سرزمین سےوابستگی کی تمنا میں اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنےلوگوں سےہمیشہ جڑےرہنےکی ہر ممکن کوشش کرتےرہتےہیں، اگر یہ تجربہ کسی حساس عورت کےحصےمیں آجائےتو اس کی اہمیت اس لئےبھی دوچند ہوجاتی ہےکہ عورت اپنےمحسوسات کی نوعیت اپنی جبلتوں اور اپنےنفسیاتی ردِ عمل کی بنا پر مرد سےمختلف لیتی ہےاگر وہ اپنےذاتی احساسات کےبیان کسی پیرایہ اظہارکو اختیار کرنےپر قادر ہوجائےتو ہمیں اس کےشخصی تجربی، مزاج، معنی کی مختلف جہتوں کو سمجھنےکی کوشش کرنی چاہئےکیونکہ اس طرح بہت سی اصلی صداقتوں کو سامنےلانےمیں مدد ملتی ہے، فرزانہ خان نیناں نہ صرف دیارِ غیر میں آباد ہیں بلکہ اپنی کاوشوں اور عملی کاموں کےذریعےاردو زبان و ادب کی ترویج میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں، مجموعےمیں شامل ان کےکوائف بغور پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ کراچی کےمصروف تعلیمی ادارےسرسید کالج سے فرزانہ جب انگلستان پہنچیں تو زندگی کےمختلف شعبوں میں اپنی تعلیمی استعداد بڑھانےکےساتھ ساتھ انھوں نےبراڈ کاسٹر، کمپیئر، سوشل ورکر، شاعرہ ، کہانی نویس اور بزمِ علم و فن کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سےبھی اپنی متنوع صلاحیتوں اظہار کیا، ان کا نام انگلستان کےادبی حلقوں میں ایک معروف نام ہےلیکن اب جبکہ وہ اپنےاولین شعری مجموعے”درد کی نیلی رگیں“کےساتھ ہم سےاور آپ سےبھی متعارف ہورہی ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ کراچی کےادبی حلقوں سےان کا تعارف یقیناََ ایک دیرپا اور خوشگوار تاثر کا حامل ہوگا ، عبدالرحمٰن چغتائی نےمصوری کےفن کےحوالےسےلکھا: ’کہ کسی آرٹسٹ کی پہلی تصویر متعارف ہوتی ہےتو وہی دن فن کی دنیا میں اس کی پیدائش کا دن ہوتا ہے‘ نیناں نےبھی فن کی دنیا میں اپنےپہلےشعری مجموعےکی اشعت کےساتھ اپنےوجود کی آمد کا اعلان کیا ہےاور اس اعلان میں ایک مسرت اور خوشی موجزن ہے، کسی فن پارےکی اولین اظہار کی تشکیل اس اعتبار سےبھی اہم ہوتی ہےکہ اس میں فنکار کےاظہار کےابتدائی خدوخال طےپارہےہوتےہیں ، انہی خد وخال میں وہ آنےوالےزمانوں میں اپنےگوناگوں احساسات ،خیالات، نت نئےافکار اور زندگی کی سچائیوں کےانکشاف سےحاصل ہونےوالےادراک کےانوکھےاور دیرپا رنگ بھرتا چلا جاتا ہے، اگر نقشِ اول فطری اور بےساختہ ہو اور فنکار کی ا نفرادیت اور تجربےکی سچائی پر دلالت رکھتا ہو تو اس کی کوششیں قابلِ قدر اور قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں، درد کی نیلی رگیں کا مطالعہ کرتےہوئےکوئی بھی یہ محسوس کر سکتا ہےکہ ان اشعار میں جذبوں اور محسوسات کےنئےپن سےپیدا ہونےوالی تازگی بدرجہ اتم موجود ہے، ان کی ساری شاعری میں ایک گہرےدرد کی کیفیت لہریں لیتی ہےجسےوہ بار بار درد کی نیلی رگوں کی ترکیب کےتعلق سےاجاگر کرتی ہیں، پھر وہی نیلا رنگ دردو غم کےاظہار کی مختلف کیفیات کےبیان کےلئےمختلف تراکیب کےحوالےسےمسلسل نمودار ہوتا رہتا ہے، محسوس ہوتا ہےکہ اس رنگ کو نیناں کےمحسوسات کی دنیا سےایک خاص نسبت ہےاور ہمیں یہ رنگ جو دور تک پھیلےاس آسمان کا رنگ بھی ہےاور ٹھاٹھیں مارتےسمندر کا رنگ بھی ہے، کسی کی حسین آنکھوں کا رنگ بھی ہےاور جسم پر کسی چوٹ کی شدت کو اجگر کرنےوالا رنگ بھی ،اس طرح یہ رنگ اپنےمتضاد اثرات مرتب کرنےکی صلاحیت رکھتا ہےاور زندگی کی وسعت، نرمی، گداز اور شدت کی مختلف کیفیات کی عکاسی کرتا ہی، نیناں کی شاعری گمشدہ لمحوں کی متلاشی اور ان سےمنسلک یادوں سےپیوستہ زندگی کی آئینہ نما ہے، مگر ان یادوں میں ایک خوشگواری ہے،وہ لبوں سےآہ بن کر نہیں نکلتی بلکہ کسی تشنہ وجود پر بارش کےشبنمی قطروں کی طرح آہستہ آہستہ ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، یہ یادیں گذری ہوئی شاموں اور کھوئےہوئےدنوں کی یادیں ہیں اور خواب ہوجانےوالےدلپسند انسانوں اور محبت کرنےوالی گمشدہ ہستیوں کی یادیں ہیں، جن کو وقت نےاپنی سیاہ چادر میں لپیٹ کر اوجھل کردیا ہے، اپنےوطن اپنےگھر اپنی مٹی اپنی گلیوں اور اپنےآنگن کی سمت لے جانے والے خوابناک اور بےانت رستےپر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور یادوں کی کرچیاں چنتی رہتی ہیں، یوں اپنےدل کو زخم زخم کیئےجاتی ہیں:
ترےخیال سےآنکھیں ملانےوالی ہوں
نئےسروپ کا جادو جگانےوالی ہوں
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
زرد پتوں میں کسی یاد کےجامن کےتلے
کھیلتےرہتےہیں بچپن کےچہکتےموسم
روز پرچھائیاں یادوں کی پرندےبن کر
گھر کےپچھواڑےکےپیپل پہ اتر آتی ہیں
کان میں ،میںنےپہن لی ہےتمہاری آواز
اب مرےواسطےبیکار ہےچاندی سونا
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کےبوٹےتھے
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم نرم مخمل ہوگئی ہوں
کسی کےعکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینےسےاوجھل ہوگئی ہوں
چل دیا ساتھ ہی میرےتری یادوں کا ہجوم
راہ سےزیست کی تنہا جو گزرنا چاہا
فرزانہ کی تمثالوں اور امیجز کی ابھرتی دنیا ، خیالوں، خوابوں، اتھاہ محبتوں اور انمٹ یادوں کی دنیا ہے، ابھی ان میں زندگی کی تلخیاں شامل نہیں ہیں ، انھوں نےگرچہ زندگی کےمختلف روپ دیکھےہیں مگر گزرتےہوئےروز و شب میں کچھ کھونےاور کچھ پانےکی آرزو کرتےہوئےاپنےسفر اور قیام کی منزلوں میں انھوں نےاپنےباطنی وجود کی آسودگی کےلئےکچھ ایسےاہتمام کر رکھےہیں کہ ان کےیہاں محرومی، اداسی، حزن و ملال کی کیفیات کےبجائےسرشاری اور شادمانی کا احساس نمایاں رہتا ہے:
خواہشیں ہوش کھوئےجاتی ہیں
درد کےبیج بوئےجاتی ہیں
انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
کیسا نشہ ہےسرخ پھولوں میں
تتلیاں گل پہ سوئےجاتی ہیں
کتنی پیاری ہیں چاندنی راتیں
تم کو دل میں سموئےجاتی ہیں
خیال نیناں اڑی جو نیند تو اک جاں فزا
خوشبو لگا بہار لگا روشنی لگا
اس شاعری میں ایک مسلسل نوسٹالوجی ہے، یہی وہ کیفیت ہےجسےانھوں نےاپنی
خوبصورت نثری تحریر میں ’میری شاعری‘ کےعنوان کےساتھ کتاب میں شامل کیا ہے، سچ پوچھئےتومجھےیہ ساری تحریر نیناں کی غزلوں اور نظموں کی خوبصورت تشریح کےمترادف محسوس ہوئی ہے،یہاں ہم دو دنیاؤں میں بٹےہوئےناآسودہ وجود سےملتےہیں جو ہمیں اپنی یادوں کےطلسم میں جکڑ لیتا ہے۔۔۔ نیناں اپنی شاعری کےبارےمیں کہتی ہیں کہ یہ میری ایک اپنی دنیا ہےجہاں میں سب کی نظروں سےاچانک اوجھل ہوکر شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، میری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائےمیری اپنی راہِ فرار کی جانب جاتی ہے، اس شاعری میں اس پیپل کےدرخت کا بھی ذکر ہےجس کےپتوں کی پیپی بنا کر وہ شہنائی کی آواز سنا کرتی تھیں اور بھوبھل میں دبی آم کی گٹھلیوں کا ذکربھی ہےاور تتلیوں کےپروں پر لکھےچہروں،گڑیوں کےکھونےوالےچہروں، گوندھےجانےوالےپراندوں، تکئےکےتلےرہنےوالےخطوں،اور سپاری کاٹنےوالےسروتوں کا ذکر بھی ہے، یہ سب کسی ایک ہی خواب کی مختلف سمتیں اور کسی ایک ہی خیال کےمختلف راستےہیں جو ایک دوسرےمیں گم ہو ہو کر بار بار نکل آتےہیں، نیناں نےاسی رستےکو اپنےلئے منتخب کیا ہےاور اسی سےوابستگی نبھاتےہوئےوہ زندگی کا سفر کررہی ہیں، کہتی ہیں : زندگی کےہزار رستےہیں میرےقدموں کا ایک رستہ ہے ایک اور جگہ کہتی ہیں:
ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں میں میری کوئی جلوہ ٹہر گیا ہے
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسےقطرہ ٹہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہےدل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹہر گیا ہے
نیناں کی شاعری اپنےلفظی پیکر تراش رہی ہیں ، لفظ لفظ سےگلےمل رہےہیں، تراکیب وضع ہورہی ہیں، شعری زبان اپنےخدوخال ترتیب دینےلگی ہے، اس تمام اظہار میں یادوں اور خیالوں کی دھنک بھی ہےاور سچ کی خوشبو بھی ۔۔۔۔
یہ سب شاعر کےاندر کی دنیا ہے، اس میں ابھی خواہش کی دنیا کے رنگ کم کم ہیں، فرزانہ وطن سےدور ایک ایسےدیار میں رہتی ہیں، جہاں زندگی اور اس کےمختلف مظاہر ہماری اس روایتی دنیا سےبہت آگےکےہیں، وہ یقیناََ ایک جدید معاشرےکےبہت سےپسندیدہ اور نا پسندیدہ مناظر سےگزرتی ہوں گی، سماجی مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہوگی، زندگی کےبہت سےپہلو اپنی جانب متوجہ کرتےہوں گے، نیناںکی خوبصورت سوچوں کےلا متناہی سلسلوں نےان کےلہجےکو بہت سی تلخیوں سےبچا رکھا ہے، مگر پھر بھی ان کےیہاں شکوےکےانداز میں بہت نرمی کےساتھ کچھ اس
طرح کی کیفیات کا اظہار گونجتا ہے:
ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بوند کو ترستا ہے
احتیاطاََ ذرا سا دور رہیں
اب تو ہر ایک شخص ڈستا ہے
نیناں کا ذہن اس اعتبار سےبہت زرخیز ہےکہ ان کےپاس بات کو اپنےانداز میں کہنےکی خواہش جھلکتی ہےاور خیالات و مضامین میں ایک نئےپن کی جستجو نمایاں ہے: اداسیوں کےعذابوں سےپیار رکھتی ہوں نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں کہاں سےآئےگا نیلےسمندروں کا نشہ میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں مثالِ برق چمکتی ہوں بےقراری میں میں روشنی چیکی لپک برقرار رکھتی ہوں مجھےامید ہےنیناں اپنی نظموں اور غزلوں کےاس ا سلوب اور لب و لہجےکو مزید نکھارنےمیں کامیاب ہوں گی اور جس عہد میں وہ زندہ ہیں اور جس تہذیب کےدرمیان رہ رہی اور بس رہی ہیں وہاں کی زندگی کےتازہ تر مشاہدات اور تجربات کےبارےمیں بھی لکھیں گی۔
پروفیسر شاہدہ حسن

No comments: