Wednesday, May 31, 2006

Rafi-ud-din Raaz-نیلی فکر کی شاعرہ

نیلی فکر کی شاعرہ
پودےلگائےگئےہوں یا قدرتی طور پر خود اگ آئےہوں انھیں دیکھ کر میں اکثر سوچتا ہوں کہ انمیں سےکتنےخوش قسمت پودےہوں گےجو کبھی اپنےآپ کو تناور درخت کی صورت دیکھ سکیں گے،موسم کی سختی، زمین کا دکھ اور وقت کی نادیدہ رہ گذر، اتنےعذابوں کو سہنا کوئی آسان نہیں،یہی وجہ ہےکہ ہر پوداپورےقد کا درخت نہیں بن پاتا، اس حوالےسےجب میں ادب میں نئےلکھنےوالوں کو دیکھتا ہوں تو یہاں بھی مجھےایسا ہی خیال آتا ہےاور میں سوچتا ہوں کہ اپنی آنکھوں میں خواب سجائےتعبیر کی جستجو میں سرگرداں یہ نو واردِ ادب اس سفر کےدوران کیا آبلہ پائی کی اذیت کو جھیل لیں گے،آنکھوں سےبہتےہوئےخون کو دامن میں جذب کرتےہوئےان کےحوصلےپست تو نہیں ہو جائیں گے،ان کےآئینہ صفت پیکر کیا پتھروں کی بارش کا تادیر مقابلہ کر سکیں گے؟ میرےایسےسوالوں کو کوئی سن رہا ہوتا ہے، فوراََ ہی سرگوشیوں میں مجھ سےکہتا ہے ’جس دیئےمیں جان ہوگی وہ دیا رہ جائےگا! آج ایسا ہی اک دیا فرزانہ خان نیناں کی صورت محفلِ شعروسخن میں فروزاں ہےاور اس کی لوَ اِس بات کی گواہی دےرہی ہےکہ اس میں ہوا سےتادیر لڑنےکی قوت موجود ہے، یہ محض ستائشی جملہ نہیں ہےبلکہ اس کےپیچھےوہ روشن امکانات واضح موجود ہیں جس کےتحت میں نےیہ جملہ لکھا ہے،فرزانہنےاپنےپہلےمجموعےمیں اپنےآپ کو شاعرہ تسلیم کروالیا ہےاور میری نظر میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے
: آدھی رات کےشاید سپنےجھوٹےتھے
یا پھر پہلی بار ستارےٹوٹےتھی
تلاش کرتا ہےبستی میں جس کو شہزادہ
وہ مورنی کسی جنگل نےپال رکھی ہے
انگلیوں سےلہو ٹپکتا ہے
پھر بھی کلیاں پروئےجاتی ہیں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سےساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
خیمےاکھاڑتےہوئےصدیاں گزر گئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سےچھپائےبیٹھی ہوں
بام و در ہیں ترےاشکوں سےفروزاں نیناں
گھر میں اچھا نہیں اس درجہ چراغاں نیناں
یہ اشعار اس بات کی گواہی دےرہےہیں کہ اس شاعرہ میں زندگی کا بھرپورادراک موجود ہے، وہ زندگی جس کا
تعلق یقین سےبھی ہےاور بد گمانی سےبھی، یہ زندگی کبھی انسان کو خود کلامی پر مجبور کرتی ہےتو کبھی اس کا وجود زمانےکی آواز سننےکےلئےہمہ تن گوش ہو جاتا ہے، کبھی انا کی لو اس کے احساس کو آنچ دکھاتی ہےتو کبھی انکسار کی نرمی اسےاوس کی بوند میں تبدیل کردیتی ہے،فرزانہ کےیہاں یہ تمام کیفیات ملتی ہیں، نسائی آواز کے مختلف رنگ ہمیں پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کےیہاں ملتےہیں، فرزانہ کےیہاں بھی نسائی آواز کا ایک الگ انداز ظہور کرتا دکھائی دےرہا ہے، اگر یہ شاعرہ ثابت قدمی سےاس راہ پر تادیر چلتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اس کےقدم نہ چومے۔ ہجر ایک ایسی حقیقت ہےجس کی آنچ کسی نہ کسی صورت عمر بھر انسان کےدامن سےلپٹی رہتی ہے، اس کا اظہار ہر شاعر اپنےطور پر کرتا ہے، فرزانہ نےہجر کو یادیں اور انتظار کی صورت لکھا ہےاور خوب لکھا ہے، کچھ اشعار دیکھئے:
یاد میری بھی پڑی رہتی ہےتکیئےکےتلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں
اسے میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنےسےمکمل ہوگئی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
مرےقریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کےبوٹےتھی
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہےنیناں، نیناں
ہےلبریز دل انتظاروں سےمیرا
میں کتبےکی صورت گلی میں گڑی ہوں
انھیں زینوں پہ چڑھتےپہلےکیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹےچبھوتی ہے
فرزانہ احساسات کی حدت کو کاغذ پر منتقل کرنےکا ہنر جانتی1 ہےاور یہ حدت صفحہءقرطاس تک ہی محدود
نہیں ہےبلکہ یہ قاری کےرگِ احساس کو بھی اپنی پوری توانائی کےساتھ چھوتی ہے، کسی جذبےکی حدت کو قاری کےدل تک پہنچانا آسان کام نہیں، بہت کم لوگ اتنی جلدی اس منزل تک پہنچ پاتےہیں،
فرزانہ کےاشعار کی جو زیریں رو ہےاُس میں اک ایسی حجاب اور شرم ہےجو اپنےاظہار کےلئےکچھ آزادی چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہےلیکن فرزانہ نےدانستہ اسےایسا کرنےسےروک رکھا ہےاور اس کی وجہ ہے۔۔۔
’درد کی نیلی رگیں‘ پڑھتےہوئےمجھ پر عجیب انکشاف ہوا، یہ فرزانہ خان نیناں جو انگلستان میں رہتی ہےوہ تو کلو ننگ شدہ نیناں ہے،اصل نیناں تو یہاں کی فضا میں قید ہے، اس کی سانسوں کی حدت تو اس فضا کی حرارت سےقائم ہے، اس زمین سےاس کا رشتہ زندگی اور موت کا ہے، انگلستان میں رہنےوالی شاعرہ کی کچھ لفظیات دیکھئے : جامن، الگنی، رہٹ، پیپل،اُپلی، گوٹھ، تھر، بھوبھل، آم کی گٹھلی ،بھاگ بھری، گڑیا، چھوئی موئی اور مورنی وغیرہ، یہ کیسی ہجرت ہےجسم وہاں ، روح یہاں! فرزانہ خان نیناں کی شاعری جن لفظیات کےگرد گھومتی ہےان میں بیشتر لفظوں کےبارےمیں کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ یہ شاعری کےلفظ نہیں ہیں، میرے نزدیک ہر لفظ شاعری کا لفظ ہےاگر کوئی شاعر اُس لفظ کو شعری آہنک میں ڈھال دے تو! انہیں لفظوں میں ایک لفظ لحاف ہے، دیکھئےفرزانہ نےلحاف کو کس طرح لکھا ہے
: میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارےلمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
فرزانہ کی شعری عمر ابھی بہت کم ہےاور فرزانہ نےلفظیات کےجس دشت میں پاؤں رکھا ہےوہ یقیناََ انتہائی محنت طلب کام ہے۔ اس مجموعےمیں حمد، نعت سےلےکر آخری نظم تک فرزانہ کا لہجہ کم و بیش ایک جیسا ہے، اس سےپہلےکہ میں نظموں پر کچھ لکھوں فرزانہ کی غزلوں سےکچھ اور اشعار سنئے
: مجھےقوموں کی ہجرت کیوں تعجب خیز لگتی ہے
یہ کونجیں کس قدر لمبےسفر کرتی ہیں ڈاروں میں
میرےجگنو سےپر سلامت ہیں
میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی
فون پر تم ملےہو مشکل سے
گفتگو کو تمام مت کرنا
ابھی تک یاد ہےاس کی وجاہت
ملا تھا جو مجھےپچھلےجنم میں
طواف اس پر بھی تو واجب ہےنیناں کعبہءدل کا
ٹہر جا تو اسےبھی اس طرف دوگام آنےدے
چھوئی موئی کی ایک پتی ہوں
دور ہی سےمرا نظارہ کر
فرزانہ میں نظم کہنےکی بھرپور صلاحیت موجود ہے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ فرزانہ میں نظم کی ایک قابلِ ذکر شاعرہ ہونےکےروشن امکانات موجود ہیس پہلی نظم ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ ملاحظہ کیجے،
: آج کا دن بھی پھیکا پھیکا
کھڑکی سےچھپ کر تکتا ہے
میں ہاری یا وہ ہےجیتا
چند لائنیں مختلف نظموں سے:
اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
تو اپنےپیکر کی سبز رُت پر
بہت سی کائی اگایا کرتی
بہت سےتاریک خواب بُنتی
----------
چاندنی کےہالےمیں کس کو کھوجتی ہو تم
چھپ کےیوں اداسی میں کس کو سوچتی ہو تم
بار بار چوڑی کےسُر کسےسناتی ہو
کھڑکیوں سےبرکھا کو دیکھ کر بلکتی ہو
سارےسپنےآنکھوں سےایک بار بہنےدو
رات کی ابھاگن کو تارہ تارہ گہنےدو
ماضی ،حال، مستقبل کچھ تو کورا رہنےدو!
------------
:کل ملبوس نکالا اپنا
ہلکا کاسنی رنگت کا
دھڑ سےکھول کےدل کےپٹ کو
خوشبو سنَ سنَ کرتی آئی۔۔۔
----------
اور ایک نظم آخری خواہش سےکچھ لائنیں دیکھئے
: ندی کنارےخواب پڑا تھا
ٹوٹا پھوٹا بےسدھ بےکل
لہریں مچل کر اس کو تکتیں
سانجھ سویرےآکر پل پل
سیپی چنتےچنتےمیں بھی
جانےکیوں چھو بیٹھی اس کو
یہ احساس ہو اکہ اس میں
روح ابھی تک جاگ رہی ہے
ہاتھ ک میرےاس کی حرارت
دھیرےدھیرےتاپ رہی ہے
تب آغوش میں اس کو اٹھایا
، اک اوندھی کشتی کےنیچے تھوڑا سا رکھا تھا سایہ۔۔۔
---------
چھوٹی نظموں پر فرزانہ کی گرفت بہتر دکھائی دیتی ہےجس کی مثال نظم ’پگلی‘ اور ’جانےکہاں پہ دل ہےرکھا‘ میں موجود ہے، ’درد کی نیلی رگیں‘ بلا شبہ ایک اچھی تخلیق ہےلیکن یہ فرزانہ کی منزل نہیں ہے، اس مجموعےنےحرف کےامکانات کےدَر وا کئےہیں، فرزانہ کو منزل تک پہنچنےکےلئےابھی سفر طےکرنا ہے، مجھےامید ہےکہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں ،وہ حاصل کر لیں گی، اس لئےکہ ان کی شخصیت میں ایک اعتماد ہے، وہ اعتماد جو کچھ کر لینےاور کچھ پالینےکےلئےضروری ہوتا ہے۔
رفیع الدین راز کراچی

No comments: