Wednesday, May 31, 2006

Darya-e-neel ka safar-Professoer Seher Ansari

دریائےنیل کا سفر
”در دکی نیلی رگیں“ میں سب سےاہم بات یہ ہےکہ شاعرہ کےاپنےشعری رویئےاور زندگی کی فکر میں ان کا جو سانچہ ہےوہ ذرا
مختلف سا نظر آتا ہے، اس میں سب سےپہلی بات تو یہ کہ اس کتاب کا سائز اوراور اس کی پروڈکشن۔۔۔!اسی آپ دیکھ لیجئےتو اندازہ ہوتا ہےکہ وہ انفرادیت اور پامال رستوں سےہٹنےکا رویہ اپنی زندگی میں رکھتی ہیں، یہ اندازہ ہوتا ہےکہ انھوں نےکتاب کی جو عام طریقوں سےتیاری ہوتی ہےاس کی ترکیب کو مختلف انداز سےپیش کیا ہے، پھر اس کےساتھ یہ ہےکہ شاعری میں ایک ایسی شدت احساسات کی سمودی ہےکہ کلام پڑھنےکےساتھ ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ واقعی یہ شاعری کو زندگی میں برتتی ہیں اور اپنےگردو پیش کی جو زندگی ہےاس میں فطرت اور مختلف انسانوں کو اپنی شاعری میں سموتی ہیں، انھوں نےجس طرح نثر میں بھی جوبات لکھی ہے، ایک بات یہ کہ مولسری کی شاخوں میں چھپادیتی ہوں جن پر میں تپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر اس کی گٹھلیاں راہگیروں کو مار کر اپنےآپ کو ماورائی شخصیت سمجھتی تھی، ایک اور بات یہ کہ موہنجو ڈارو کےقبرستان میں شاعری کھڑا کر دیتی ہیں، جہاں ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتےہوئےمیں کانچ گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنےلگتی ہوں، یہ ایک ایکویژن ہےکہ موہنجو ڈارو کی پوری تہذیب اس وقت اور اس کےساتھ پھر اپنےماں باپ کی قبر، فاتحہ اور اس کےساتھ پھر وقت ریت کی طرح گزارنےکی کیفیت، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سےمعلوم ہوتا ہےکہ محسوسات کوایک تجسیمی شکل میں دیکھنا اور انھیں پیش کرنا یہ شاعری کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے، فیض صاحب کی ایک نظم میں ہےکہ”درد کی کاسنی پازیب بجاتی نکلی“ تو اب دیکھئےدرد کی کاسنی پازیب اور ”درد کی نیلی رگیں“ تو ایک غیر مرئی چیز ہی”درد“ اس کو آنکھوں سےدکھا دینا، محسوس کرادینا جو کہ نظر نہیں آتا ہےوہ نیلی رگوں کےذریعےہی ممکن تھا، تو یہ بات پوری شاعری میں نظر آتی ہےکہ محسوسات کو تمثیلوں کےذریعےتصویروں کی طرح اجاگر کیا گیا ہےکہ شاعرہ کےتخیل کو اور ان کےمحسوسات کی دنیا کو، ہم ان کی شاعری میں پوری طرح پالیتےہیں، میں نےجتنےاشعار منتخب کئے، سنائےجاچکےہیں، پھر بھی اس طرح ہےکہ: اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں گٹھڑیاں باندھ کےاس دل کےنگر آتی ہیں تو اب اس طرح کی جو امیجری ہےآپ دیکھیں گےکہ پراندہ ہے، رہٹ، مورپنکھ،اوک میں پانی بھرنا، جن کو شاعری کی دنیا میں ہم غیر شاعرانہ الفاظ کہتےہیں، شاعری وہیں اپنا جوہر دکھاتی ہےکہ جہاں لفظ جنھیں آپ یہ سمجھتےہیں کہ یہ بےجان ہیں یا اس کا استعمال غیر شاعرانہ ہوجائےگا وہاں شاعر اپنی تخلیقی قوت سےاس کو ایک نئی زندگی دے تو وہ ہی دراصل شاعری کا اصلی جوہر ہوتا ہے، ایسی کئی مثالیں نیناں کی شاعری میں نظر آتی ہیں: تمہیں گلاب کےکھلنےکی کیا صدا آتی تمہارےگرد تو ہر وقت صرف پیسا ہے تو زندگی کو انھوں نےجس طرح دیکھا ہےوہ بھی ایسےماحول میں رہتےہوئےجہاں آپ دیکھیں گےکہ انسان کی کوئی قدر نہیں ہے، جذبِ زَر کا ایک رحجان پایا جاتا ہےاور اس کےبارےمیں نظیر اکبر آبادی نےکہا ہےکہ ”کوڑی کےساتھ جہان میں نصب نہ دین ہے کوڑی کےپھر تین تین ہیں“ تو وہاں ان قدروں کو محسوس کرنا کہ پیسہ اور دولت کوئی قدر نہیں ہےاصل چیز تو یہ ہےکہ آپ کےکانوں تک گلاب کےچٹکنےکی صدا پہنچ سکی، شدید جذبات ہیں اور لطیف جذبات ہیں، نیناں نےمختلف حوالوں سےمحسوس کیا ہےاب جیسےہمارےمعاشرےکی زندگی، کارو کاری کا بہت ذکر ہوتا ہی، Honour کےمختلف مسائل بھی آتےرہتےہیں اب ان کو شعروں میں اس طرح ڈھالنا کہ: قبیلےکےخنجر بھی لٹکےہوئےہیں
کھڑی ہیں جہاں لڑکیاں دل کو ہاری
تو اب یہ جو ہےکہ:
لگاتار روتی ہےلہروں کی پائل
سدا جھیل میں ہیں شکاری شکاری
ان کی غزلوں اور نظموں میں جو نئےالفاظ کی تلاش ہےاس کو آپ رعایتِ لفظی نہیں کہہ سکتےبلکہ وہ اپنی معنویت کےساتھ ہیں جیسے” شکاری اور شکاری“ میں جو معنوی کیفیت ہےوہ پوری طرح واضح ہوجاتی ہے:
پیاسوں کےواسطےیہی نیناں بھرےبھرے
جلتےجھلستےتھر میں کبھی رکھ دیا کرو
ہے بلند آدمی ذہانت سی
ذہنیت پست ہےتو پستہ ہی
اب یہ جو بات لکھی ہےکہ میں سماجی مسائل کی بابت نہیں لکھتی، یہ سماجی زندگی تو خود بخود شاعرکےاندر آجاتی ہےاگر اس میں کوئی شعور موجود ہےکیونکہ کسی انتہائی باطنی اور داخلی تجربےکو یہ محسوس کریں کہ اس کا کوئی خارجی حوالہ نہیں ہےتو تجزیئےسےمعلوم ہوگا کہ وہ بھی کسی خارجی حوالےکےذریعےآپ تک پہنچا ہے:
دھوپ گر نہ صحرا کےراز کہہ گئی ہوتی
میں تو بہتےدریا کےساتھ بہہ گئی ہوتی
, ان کےاشعار میں بےساختگی کےساتھ مصرعوں کی جو پوری ساخت نظر آتی ہےاس میں پورا ایک سانس کا اتارچڑھاؤ جو کہ شاعری کےلئےبہت ضروری ہےوہ مصرعوں میں پوری طرح محسوس ہوتا ہے، اس پر کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں پر بھی کم گفتگو ہوئی ہے، نظموں میں ایک اہم بات یہ ہےکہ خیال کی ہر لہر شروع سےآخر تک ایک رہےاور اس میں نامیاتی اکائی یا آنریری یونٹی ایک رہےاور وہ نامیاتی اکائی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے:
کڑی دھوپ میں چلتےچلتے
سایہ اگر مل جائے۔۔۔ تو!
اک قطرےکو ترستےترستے،
پیاس اگر بجھ جائےتو۔۔۔!
برسوں سےخواہش کےجزیرے
ویراں ویراں اجڑےہوں
اور سپنوں کےڈھیر سجا کر
کوئی اگر رکھ جائے۔۔۔تو!
بادل، شکل بنائیں جب
نیل آکاش پہ رنگوں کی
ان رنگوں میں اس کا چہرہ،
آکےاگر رک جائے۔۔۔تو!
خاموشی ہی خاموشی ہو،
دل کی گہری پاتالوں میں
کچھ نہیں کہتےکہتےگر،
کوئی سب کہہ جائےتو۔۔۔!
زندہ رہنا سیکھ لیا ہو ،
سارےدکھوں سےہار کےجب
بیتےسپنےپاکےخوشی سے،
کوئی اگر مر جائے۔۔۔تو
!
یہ پوری اکائی ایک خیال کی موجود ہےاگر اس میں سےیہ نکال دی جائےتو یہ محسوس ہوجاتا ہےکہ اس میں ایک کمی واقع ہوگئی ہے، ان کےیہاں نظموں میں انفرادیت ہے، نیناں پہلےبھی یہاں آچکی ہیں جب بھی سنا اور اب بھی، یہ ثابت ہوا ہےکہ ان کےیہاں دوسروں سےمختلف ایک انفرادیت موجود ہےاور یہ دوسروں سےالگ لہجہ، اپنی شاعری کا راستہ، رخ اور انداز بنا رہی ہیں،
لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہےاور اس کا احساس ان کی اس نظم میں نمایاں ہےکہ:
اپنا راستہ ڈھونڈنا اکثر اتنا سہل نہیں ہوتا ہے
لوگوں کےاس جنگل میں،
چلنا سہل نہیں ہوتا ہے
یہ تو کوئی جگنو ہے
جو لےکر روشن سی قندیل
کبھی کبھی یوں راہ بناے،
جیسےہو دریائےنیل۔۔۔!
تو یہ حقیقت ہےکہ انفرادیت کا راستہ شاعری میں بنانا، جہاں اتنی آوازیں ہیں اتنےلہجےہیں، تو یہ واقعی اک دریائےنیل کا ساسفر
ہے جو اپنا راستہ خود بناتا چلا جاتا ہے۔۔۔ مجھےاس کی پوری امید ہےکہ یہ دریائےسخن اسی طرح بہتا رہےگا اور یہ دریائےنیل جو کہیں جاکر سفید بھی ہوجاتا ہےوہ اپنےرنگ اجاگر کرتا رہےگا ، میں ان کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نےایک بہت اچھا مجموعہ اردو شاعری کو عنایت کیا ہے۔۔۔شکریہ
پروفیسر سحر انصاری کراچی

No comments: